ساون کا موسم بھی کیا رومان پرور موسم ہوتا ہے۔ جون اور جولائی کی شدید گرمی میں جب انسان جھلس کر الامان والحفیظ پکار رہا ہوتا ہے تو گھنگھور گھٹائیں جھوم کر آتی ہیں اور سورج کو ڈھانپ کر اس کی آگ کو زمین پر حکمرانی سے روک دیتی ہیں۔ بادل گرجتے ہیں‘ بجلی کڑکتی ہے اور پھر چھم چھم بوندیں پڑنے لگتی ہیں۔ تب ہر طرف جل تھل ہوجاتی ہے۔ اس موسم میں چلنے والی ہوائیں اپنے ساتھ مختلف پھولوں اور زمین سے اٹھنے والی مہک کو پورے علاقے میں پھیلا کر مسحور کن بنادیتی ہے۔ گرمی کے ستائے ہوئے بچے‘ جوان اور بوڑھے گھروں سے نکل کر سیرگاہوں کا رخ کرتے اور اس موسم کا خاص پھل آم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ غرض برسات کا یہ موسم انسانوں پر ایک عجیب مسحور کن نشہ طاری کردیتا ہے۔ یہ سب کچھ تو ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ موسم اپنے ساتھ بہت سے امراض کو بھی جنم دینے کا باعث بنتا ہے جن کا ذکر ہم اس مضمون میں کریں گے۔
اگست کا مہینہ بھرپور برسات کا مہینہ ہوتا ہے اسی وجہ سے اس مہینے کو موسمی لحاظ سے سال بھر کے تمام مہینوں میں غلیظ و مرطوب‘ متعفن و کثافت آمیز‘ نیز کیڑوں مکوڑوں کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں کا موسم قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے میں بعض موسمی پھل اپنی رنگت و شباہت اور شکل و صورت کے اعتبار سے بہت عمدہ اور دیدہ زیب دکھائی دیتے ہیں لیکن گر ان کے بطون میں بغور جھانکا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں عجب الخلقت‘ نہایت مختصر حجم ولی ننھی ننھی خوردبینی مخلوق آباد ہے اور بعض پھلوں میں تو یہ ننھی ننھی مخلوق کسی قدر خوردبین کے بغیر‘ ننگی آنکھ سے بآسانی کلبلاتی‘ کسمساتی اور ہمکتی دیکھی جاسکتی ہے اور یہی وہ مخلوق ہے جو کیڑوں کے نام سے معروف اور گوناگوں ہولناک امراض پیدا کرنے میں مصروف ہے۔ عام آدمی شاید یقین نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگست ہی وہ مہینہ ہے جس میں بیشتر پھلوں پھولوں میں بھانت بھانت کی جراثیم نما حشراتی مخلوق ظہور پذیر ہوجاتی ہے۔
٭ اگست ہی وہ مہینہ ہے جس میں کائنات ارض کی گداز و ملائمت رکھنے والی ہر چیز خوردبینی جرثوموں اور ناقابل قیاس حد تک ننھے کیڑوں کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ ٭ اگست ہی وہ مہینہ ہے جس میں سینہ گپتی اور کیچوؤں اور بیربہوٹیوں کا سیلاب جابجا پھوٹ پڑتا ہے۔
٭ اگست ہی وہ مہینہ ہے جس میں چند انتہائی محتاط‘ کم خور‘ باقاعدہ غسل کے عادی‘ صفائی پسند‘ مشقت طلب‘ توانا ۱عصاب اور ہمہ وقت مصروف رہنے والے افراد کے سوا قریب قریب ہر شخص موسمی عوارض میں مبتلا رہتا ہے۔ ٭ اگست ہی وہ مہینہ ہے جس میں ہیضہ کسی پراسرار آسیب کی طرح بھری ہوئی بستیوں میں چپکے سے نمودار ہوتا ہے اور ہلاکت خیزیوں میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اگست ہی وہ مہینہ ہے جس میں موسم کاتلون اپنی انتہاء کو پہنچ جاتا ہے یعنی نومبر دسمبر کی خنکی دوڑنے لگتی ہے اور بادل چھٹ کر دھوپ نکلتی ہے توکسی جراح کے نشترکی طرح بدن میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ٭ اگست ہی وہ مہینہ ہے جس میں سوء ہضم‘ اعصابی نقاہت‘ درد‘ شکم پیٹ کے کیڑے‘ پھوڑے پھنسیاں‘ خارش‘ امتلاء طبیعت حتیٰ کہ بھگندر‘ فساد امعاء کے عوارض غیرمحتاط اور کمزور اعصاب والے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
ان تمام حقائق کے پیش نظر ہر صاحب نظر‘ محتاط اور صحت و ثبات کو عزیز رکھنے والے انسان کیلئے لازمی ہے کہ وہ اس مہینے میں اپنے معمولات زندگی کو احتیاط‘ توازن و اعتدال اور حفظان صحت کے اصولوں کا پابند بنائے۔ بصورت دیگر کسی نہ کسی موسمی عارضے کی میزبانی کیلئے تیار رہے۔ ذیل میں چند ضروری موسمی ہدایات‘ صحت بخش تدابیر اور موسمی عوارض کے سہل الحصول معالجات بیان کیے جاتے ہیں۔
چھوٹے بچے‘ غسل اور موسمی احتیاط: یہ مہینہ انتہائی گندہ اور مرطوب ہوتا ہے۔ اس لیے اس میں چھوٹے بچوں کے معاملے میں بیش از بیش احتیاط کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ بچوں کو غسل کراتے وقت یہ خیال رکھیں کہ پانی ان کے منہ اور کان میں نہ چلا جائے کیونکہ اس صورت میں چھوٹے بچوں میں کسی نہ کسی عارضے کے پھوٹ نکلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ٭ نہلانے کے بعد ان کے کنج ہائے ران‘ بغلوں اور کانوں کے عقبی حصوں کو خاص طور پر تولیے سے اچھی طرح صاف کریں اور پھر ان مقامات پر کوئی اچھا سا پاؤڈر بطور احتیاط چھڑک دیں۔ یاد رکھیں! چھوٹے بچوں کے غسل کے سلسلے میں یہ احتیاطیں صرف اس نقطہ نظر سے لازمی ہیں کہ چھوٹے بچوں کی بیرونی جلد میں اگست (برسات کا موسم) کے مہینے کے مرطوب موسمی اثرات کے باعث خارش ہونے اور چھوٹے موٹے پھوڑے پھنسی کے پھوٹ پڑنے کے شدیدامکانات ہوتے ہیں۔
غذائی معمولات: اس مہینے میں غذا کا معتدل اور متوازن ہونا نہایت ضروری ہے۔ لحمی غذاؤں میں بکری کا گوشت زیادہ موزوں ہے اور وہ بھی زیادہ تر کسی سبزی کے ساتھ پکایا جانا زیادہ مفید و مناسب ہے۔ سبزیوں کے انتخاب میں دو چیزوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں کہ وہ زیادہ ملین نہ ہوں‘ ثانیاً انہیں پکانے سے اچھی طرح دو تین بار پانی سے صاف کرلینا چاہیے۔ دالوں میں سالم مونگ‘ ماش اور مسور کا استعمال کم سے کم کریں۔ اگر مجبوری ہو تو حتی الوسع ان میں زیرہ سفید اور سیاہ مرچ کی تھوڑی سی مقدار ضرور شامل کریں۔ تربوز اور پھوٹ کا استعمال ترک کردیں۔
میٹھی اور دیرہضم غذائیں استعمال نہ کریں‘ شربت سکنجبین یا شربت مفرح میں لیموں کا رس ڈال کر زیادہ سے زیادہ پیتے رہنا چاہیے۔ کھانے کے ساتھ پیاز میں سرکہ ملا کر ضرور استعمال کرنا چاہیے تاکہ نظام ہضم درست رہے۔ کپڑے ایسے پہنیں جو پسینے کو اپنے اندر جذب کرنے کی خصوصیت رکھتے ہوں اور جلد ٹھنڈی رہے۔ کپڑے دن میں ایک بار ضرور تبدیل کریں۔ بچوں کو نیم کے پتوں میں جوش دیئے ہوئے پانی کو ٹھنڈا کرکے پلانا چاہیے اس سے خارش‘ پھنسی اور پھوڑوں سے کافی حد تک بچا جاسکتا ہے۔ ملیریا ایک متعدی بیماری ہے جو ایک خاص مچھر انافلس کے کاٹنے سے ہوتا ہے بخار چڑھنے سے پہلے طبیعت سست ہوجاتی ہے جسم ٹوٹتا ہے‘ سردی محسوس ہوتی ہے‘ پہلے پیشانی پھر تمام جسم گرم ہوجاتا ہے‘ پیاس کا غلبہ ہوتا ہے۔ علاج: تلسی کے تازہ پتے 12 گرام اورسیاہ مرچ 3 گرام باریک پیس کر چنے کے برابر گولیاں بنائیں۔ صبح و شام ایک گولی پانی کے ساتھ دیں۔ بخار اترنے کے بعد دودھ ابال کر ٹھنڈا کرلیں اور اس میں سوڈے کی بوتل ڈال کر پلائیں۔ غذا: ہلکی زود ہضم غذا دیں۔ مثلاً مونگ کی دال کی پتلی سی کھچڑی‘ دلیہ‘ ساگودانہ‘ چپاتی اور شوربہ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں